Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۹(کتاب الوکالہ، کتاب الاقرار، کتاب الصلح، کتاب المضاربہ، کتاب الامانات، کتاب العاریہ، کتاب الہبہ، کتاب الاجارہ، کتاب الاکراہ، کتاب الحجر )
1 - 120
بسم اللہ الرحمن الرحیم

کتاب ا لوکالۃ

(وکالت کا بیان)
مسئلہ ۱: از کمیپ میرٹھ لال کرتی بازار محلہ گھوسیاں مرسلہ شیخ غلام احمد صاحب ۴ رمضان المبارک ۱۳۱۵ھ

جناب مولٰنا! بعد تقدیم سلام عرض یہ ہے کہ اس مسئلہ کی ضرورت ہے جلد مشرف فرمائیں۔

بعض شخصوں نے کچھ روپے زید کو دئے کہ ان کی کتابیں دینیہ لے کر طالبعلموں کو دے دو۔ زید کے پاس خود وہ کتابیں دینیہ موجودتھیں اس نے اپنے پاس سے حسب نرخ بازار کتابیں لے کر طالبعلموں کو تقسیم کردیں اور وہ روپے اپنی کتابوں کی قیمت میں آپ رکھ لئے اور یہ سمجھا کہ میں نے یہ بیع اصالۃ اور خرید وکالۃ کی ہے اور مقتضائے حال سے قطعا معلوم ہے کہ مالکوں کو ہر گز کچھ غرض اس سے متعلق نہ تھی کہ بازار ہی سے کتابیں خریدی جائیں اسی واسطے انھوں نے معاملہ میں یہ قیدنہیں لگائی ان کا اصل مقصد تقسیم کتب سے تھا وہ زید نے بخوبی کردیا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ تقسیم کتب مالکوں کی طرف سے ہوگئی یا نہیں؟ اور اگر نہیں ہوئی تو اب کیا کیا جائے؟ کتابیں واپس نہیں ہوسکتیں، بالکل یادنہیں رہاکہ وہ طالبعلم کون کون تھے ، زیادہ زمانہ گزر گیا۔ اور مسئلہ میں شبہ اب پڑا اور وہ روپے بھی باقی نہیں رہے، بینوا توجروا (بیان کیجئے اجر دئے جاؤ گے۔ ت)      

 الجواب

صورت مستفسرہ میں زید کو اصلاً یہ اختیارنہ تھا ۔ نہ وہ بیع ان روپیہ دینے والوں کے ہاتھ ہوئی۔
فان الواحد لایتولی طرفی العقد فی البیع وامثالہ بخلاف النکاح۔
کہ بیشک ایک ہی شخص بیع جیسے عوض کے معاملات میں خرید اور فروخت دونوں کا ولی نہیں بن سکتا بخلاف نکاح کہ اس میں بن سکتا ہے۔ (ت)



تویہ کتابیں اس کی اپنی گئیں روپے کے مالکوں کو ان کا روپیہ واپس کرے۔

فی الدرالمختار لایعقد وکیل البیع والشراء والاجارۃ ونحوھامع من ترد شہادتہ لہ الا اذا اطلق لہ المؤکل کبع ممن شئت فیجوز بمثل القیمۃ وفی السراجیۃ لوصرح بہم جاز اجماعا الا من نفسہ ۱؎ اھ مختصرا وفی ردالمحتار عن منح الغفار عن السراج الوھاج لوامرہ بالبیع من ھؤلاء فانہ یجوز اجماعا الا ان یبیعہ من نفسہ فلا یجوز قطعا وان صرح بہ الموکل اھ ۲؎ باختصار۔ واﷲ سبحٰنہ تعالٰی اعلم۔
درمختارمیں ہے بیع شراء اور اجارہ ان جیسے معاملات کاوکیل ایسے لوگوں سے عقد نہیں کرسکتا جن کی شہادت اس کے حق میں مقبول نہیں مگر اس صورت میں جبکہ موکل نے اسے عام اختیار دیا ہو مثلا یہ کہہ دے تو جس سے چاہے بیع کر، تو ایسی صورت میں وہ ان لوگوں سے بازاری قیمت پر عقد کرسکتاہے اور سراجیہ میں ہے اگر موکل نے ایسے لوگوں سے عقد کی صراحتا اجازت دی تو بالاجماع بیع جائز ہے لیکن خود اپنے لئے خرید نہیں کرسکتا اھ مختصرا۔اور ردمحتار میں ہے منح الغفار کے حوالہ سے السراج الوھاج سے منقول ہے کہ اگر موکل نے ایسے لوگوں سے بیع کا اختیار دیا ہو تو بالاجماع ان لوگوں سے بیع جائز ہے لیکن اپنی ذات کے لئے خریدنا تو یہ قطعا جائز نہیں اگرچہ مؤکل نے اس کو صراحۃ یہ اجازت بھی دی ہو اھ مختصرا۔ واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الوکالۃ باب الوکالۃ بالبیع والشراء        مطبع مجتبائی دہلی        ۲ /۱۰۷)

(۲؎ ردالمحتار    کتاب الوکالۃ باب الوکالۃ بالبیع والشراء        داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۴۰۷)
مسئلہ ۲:  از دولت پور ضلع بلند شہر مرسلہ بشیر محمد خاں صاحب ۵ شعبان ۱۳۲۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں وکیل مطلق اگر کسی کو کچھ معاف کردے اور اس کو اختیارات کامل معاف کردینے کے حاصل ہوں توپھر وہ رقم معاف شدہ از روئے شرع شریف کے پانے کا مستحق ہے یانہیں؟
الجواب

اگر صراحۃ معاف کردینے کی اجازت مؤکل نے دے دی تھی جب تو اس کامعاف کیا ہوا بعینہٖ موکل کامعاف کیا ہوا ہے جہاں خود اپنی معافی کو واپس نہیں لے سکتا وکیل کی معافی بھی واپس نہ ہوسکے گی اور شرعا اس رقم کا مستحق نہ رہے گا، اگر صرف وکیل عام کیا یا کہہ دیا کہ اس کا جملہ ساختہ پر داختہ مثل میرے ذات کے ہے تو معاف کردینے کا وکیل کو اختیار نہ ہوگا، موکل اگر قبول نہ کرے تو رقم معاف کر دہ لے سکتا ہے۔ 

درمختار میں ہے :
اعلم ان الوکیل وکالۃ عامۃ مطلقۃ مفوضۃ انما یملک المعاوضات لاالطلاق والعتاق والتبرعات بہ یفتی ۱؎ زواہر الجواہر ، تنویر البصائر۔
واضح رہےکہ جس وکیل کو مطلق عام وکالت تفویض کی گئی ہو وہ صرف عوض والے معاملات میں مختار ہوگا،طلاق ، عتاق اور تبرعات کا اختیار اسے نہ ہوگا، اسی پر فتوٰی دیا جائے، زواہر الجواہر، تنویر البصائر (ت)
 (۱؎ درمختار     کتاب الوکالۃ     باب الوکالۃ بالبیع والشراء        مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۱۰۹)
اور بزازیہ میں ہے :
انت وکیل فی کل شیئ جائز امرک ملک الحفظ والبیع والشراء الاالعتق و التبرع وعلیہ الفتوی ۲؎ اھ ملخصا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
تجھے ہر جائز معاملہ میں میری وکالت ہے۔ تو اس سے وکیل کو حفاظت،بیع اور شراء کا اختیار حاصل ہوگا، عتق اور تبرعات کا اختیار نہ ہوگا اور اسی پر فتوٰی ہے اھ ملخصا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۲؎ فتاوٰی بزازیہ علی ہامش الفتاوی الہندیۃ    کتاب الوکالۃ    الفصل الاول    نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۶۰۔۴۵۹)
مسئلہ ۳: ازدفتر محکمہ زراعت پنجاب لاہور مسئولہ محمد نصراللہ صاحب ۲۱ محرم ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ پیشتر وکالت ازروئے شرع شریف جائز ہے یانہیں؟ بینوا تو جروا۔
الجواب

وکالت جس طرح رائج ہے کہ حق کو ناحق، ناحق کو حق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگروہ سچ بولنا چاہے تو کہتے ہیں اگر سچ کہو گے تو تمھارا مقدمہ سرسبزنہ ہوگا، جھوٹی گواہیاں دلواتے ہیں۔ جھوٹے حلف اٹھواتے ہیں۔ قطعی حرام ہے، اور ایسی ہی وکالت آج کل فروغ پاسکتی ہے، وہ جو کامل تحقیقات کے بعد جسے  حق پر جان لے صرف اس کی وکالت کرے، محض بطور حق کرے، جھوٹ بولنے یا بلوانے سے پرہیز کرے اس کی وکالت اس زمانے میں اصلا نہیں چل سکتی۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter